دفتری اردو کی قدیم روایت:.
پنجاب میں خالصہ دور کا خاتمہ اس علاقے میں فارسی اور دفتری حیثیت کا بھی نقطہ انجام تھا۔ دفتری اردو کی قدیم روایت میں خالصہ عہد میں یہاں پاکستان کے اہم حصے یعنی پنجاب سے سرحد تک فارسی زبان دفتری اور سرکاری حیثیت سے رائج تھی۔ اس عہد میں اردو زبان میں عوام الناس کی سطح پر معاملات انجام پاتے تھے لیکن ان کی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔ خالصہ عہد میں اردو زبان کا رواج بھی عوامی سطح پر بہت تھا۔ حتی کہ پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بارے میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ سرکاری مضامین تو فارسی میں لکھواتے تھے لیکن تشریفات (Protocol) میں غیر ملکی سفیروں اور غیر ملکی مہمانوں سے اردو بولتے تھے۔
مقبوضہ پنجاب کا الحاق:۔
1949ء میں انگریزوں نے مقبوضہ پنجاب کا الحاق سلطنت برطانیہ سے کر دیا۔ اس وقت پنجاب انتظامیہ کے سربراہ لارڈ لارنس تھے جو تقریباً اس تمام ملک کے سربراہ مانے جاتے تھے جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔اسی لارڈ لارنس نے پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا کہ پنجاب اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی دفتری زبان فارسی کی بجائے اردو ہونی چاہیے۔
یہاں کلک کیجئے:۔ یو ایس بی اور پین ڈرائیو میں فرق
الحاقِ پنجاب کے بعد ہر چند انگریزی زبان نے کاروبارِحکومت میں عمل دخل اختیار کیا لیکن عوام میں زیادہ سمجھی جانے والی زبان کو عدالتی اور دفاتر کی اہم ضرورت بھی قرار دیا گیا تاکہ حاکم اور رعایا کے درمیان فاصلہ کم کیا جا سکے اور افہام و تفہیم میں اضافہ ہو سکے۔ پنجاب سے مراد وہ پنجاب نہیں جو آج پاکستان کی حدود میں ہے بلکہ اس سے مراد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا چھوڑا ہوا وہ تمام علاقہ بشمول مشرقی پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخوا اور سندھ کی عدالتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں اردو بحیثیت دفتری زبان کا نفاذ ضروری قرار پایا۔
دفاتر میں اردو کا رواج:۔
دفاتر میں اردو کا رواج ہر چند پنجاب سے شروع کیا گیا مگر بعد میں اس کا دائرہ اثر بڑھتا گیا۔ یہ انگریزی حکومت کی انتظامی پالیسی کا حصہ قرار پایا ۔ مشرقی پنجاب کی اکثر ریاستیں بھی جو انگریزوں کے زیر حمایت تھیں۔ اس حکمتِ عملی میں خود بخود شامل ہو گئیں۔ یہاں چند ریاستوں کا ذکر ضروری ہے۔ ان میں سے ایک ریاست حیدر آباد (دکن)، دوسری بہاولپور اور تیسری جموں و کشمیر کو بطورِ مثال زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
عدالتی استحکام اور رواج:۔
بشیر الدولۂ 1829ء میں صدر المہام قرار پائے۔ انہوں نے انتظام عدالت کا جائزہ لیا اور اردو کو نافظ کیا۔ اردو کو عدالتوں کی زبان کی طرف حیدرآباد ریاست کا یہ پہلا قدم تھا۔ حیدر آباد (دکن) میں دفتری اردو کا نفاذ 1853ء سے شروع ہوتا ہے۔ 1849ء میں آصف الدولۂ آصف جاہ کے انتقال کے بعد نواب محبوب علی خان حیدر آباد کے حکمران قرار پائے اور ان کے ادوار میں اردو کو عدالتی حیثیت میں استحکام اور رواج ملا۔
اسے پڑھیے:۔ انقلابی رہنما چی گویرا
سالارِ جنگ دوئم نے اپنے صدر المہام کے عہدے کا چارج لینے کے چند دن بعد ہی یہ سرکولر جاری کیا کہ آئندہ جملہ عدالتی دفتروں میں اردو کے ذریعہ خط و کتابت ہو گی۔ میر محبوب علی خان کے دور میں جب فارسی کی جگہ اردو سرکاری زبان قرار پائی تو عہدہ داروں کی جانب سے کوشش کی گئی کہ ہر سطح پر اردو نافظ ہونی چاہیے اور فارسی کا استعمال زیادہ نہ ہو۔
اسے کھولیے: ۔ اردو ہماری قومی زبان (حصہ اوّل)
حیدر آباد (دکن) کے بعد ریاست بہاولپور برِصغیر کی دوسری ریاست تھی جہاں اردو کو دفتری اور عدالتی اصطلاحات کے عمل کا حصہ بنایا گیا۔ قیام پاکستان سے سو سال پہلے پنجاب کی عدالتوں، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نفاذِ اردو کا عمل شروع ہو چکا تھا اور پنجاب کے تمام اضلاع میں فارسی کی بجائے اردو نے دفتری انتظام کو اپنے تصرف میں لے لیا تھا۔ ہر چند یہ کہ خالصہ دور سے لیکر برِصغیر پر انگریزوں کی حکومت تک دفتری اردو کی قدیم روایت میں شامل ہیں۔
دفتری اردو کے خصائص:۔
ہر زبان تحریر کے ذریعہ ہی محفوظ کی جا سکتی ہے۔ دفتری اُمور کی انجام دہی بھی تحریر کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ لہذا دفتری زبان کا تعلق تحریر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور دفتری تحریر کو پراثر بنانے کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب کرنا ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے اطلاعات، مواصلات اور خیالات دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ دفتری زبان کے الفاظ کے بہت واضع اور پر اثر مگر سادہ اور مختصر ہونے چاہیے۔
About Author:
Muhammad Irfan Shahid
Experienced Lecturer with a demonstrated history of working in the Computer Software industry. Skilled in Microsoft Office (MS Word, MS Excel, MS PowerPoint, MS Access) HTML, CSS, JavaScript, PHP, C, C++, Java, ASP.Net, and MySQL. Strong information technology professional with BSCS (Hons) focused in Computer Science from Virtual University of Pakistan, Lahore.