قومی زبان کا انتخاب:۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی پاکستان کی قومی زبان اُردُو منتخب ہو چکی تھی۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے 10 سال بعد جب بنارس کے ہندوؤں نے اُردُو کے خلاف محاذ کھولا اور اردو کے مقابلے میں ہندی دیونا گری رسم الخط کے لئے دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر تحریک چلائی تو سر سید احمد خان اردو کی ترقی و ترویج کے لئے سر گرم ہو گئے، یوں قیام پاکستان سے پہلے ہی جہاں اردو کو عربوں اور مسلمانوں کی زبان کے طعنے سننے کو مل رہے تھے وہیں تحریکِ پاکستان میں اردو ایک اہم عنصر کے طور پر شامل تھی اور نئے ملک کی قومی زبان کے طور پر اردو کا نام پہلے سے ہی طے ہو چکا تھاکیونکہ یہ زبان مسلمانوں کے باہمی رابطے ، مذہب ، تہذیب و تمدن ، روایات اور ماضی کی زبان تھی اور اس قابل تھی کہ نئے ملک کے تمام صوبوں، دفاتر اور عوام کی زبان کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے سکے۔
قائد اعظمؒ کا کردار اور اُردُو کے عملی نفاذ کی صورتیں:۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کراچی میں پیدا ہوئے, لیکن ان کے بزرگوں کا تعلق جنوبی ہند کے شہر گجرات کاٹھیاوار سے تھا۔ گجرات کاٹھیاوار کے لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور وہ تجارت کی غرض و غایت سے بمبئی(ممبئی) اور کراچی تک سفر کرتے رہتے تھے۔ قائد اعظم کا گھرانہ انیسویں صدی میں کسی وقت جنوبی ہند (گجرات) سے ہجر ت کر کے کراچی میں متمکن ہو گیا۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی۔ لیکن ان دنوں گجرات شہر کے بازاروں میں کاروبارِ زندگی ، گجراتی آمیز اردو میں ہو رہا تھااور یہی زبان کراچی کے ان علاقوں میں بھی بولی جاتی تھی جن کا آبائی تعلق جنوبی ہند کے گجرات اور کاٹھیاوار کے شہروں سے تھا۔ قائداعظم گھر میں گجراتی بولتے تھے اور گھر سے باہر گجراتی آمیز اردو ان کا ذریعہ کلام تھی۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرستہ الاسلام میں حاصل کی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلینڈ چلے گئے۔انگلینڈسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ وطن واپس لوٹے تو انہوں نےنے ممبئی کو مستقل مستقر قرار دیا۔ ذریعہ معاش ان کا وکالت تھا۔ علمی ، سیاسی ، سماجی اور قانونی حلقوں میں وہ اپنی ذہانت ، دقیقہ سنجی اور نکتہ رسی کے باعث بے پناہ اہمیت کے حامل قانون دان متصور کیے جاتے تھے۔
مسلم لیگ میں شمولیت:۔
قائد اعظمؒ ابتداً دیگر مسلم زعماء کی طرح ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے لیکن جلد ہی ان پر کانگریس کا حقیقی چہرہ عیاں ہو گیا اور وہ مسلم لیگ کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد ان کے مسلم لیگی قیادت کے ساتھ بھی چند معاملات پر اختلافات رہےمگر کسی نہ کسی سطح پر ان کا تعلق مسلم لیگ کے ساتھ قائم رہا۔
علامہ اقبالؒ کے خطبہ الہ آباد کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ ایک خاص نقطۂ نظر پر کام کر رہی تھی کہ قائد اعظمؒ ایک بار پھر مسلم لیگ میں شریک ہوئے اور اس بار ان کا کردار نہایت فعال اور مثالی رہا۔ قائد اعظم کی عظیم قیادت میں مسلم لیگ نے اپنی فکری اور تہذیبی ترجمانی کے لیے اردو زبان کو اختیار کیا کیوں کہ کانگریس اردو کی بجائے ہندی کو بے پناہ اہمیت دے رہی تھی۔
ہندی ایک علیحدہ زبان:۔
گاندھی نے مختلف مواقع پر اردو کی تہذیبی اور فکری معنویت کو ہندی کےلیے خطرہ جانتے ہوئے ایک ایسے ردِ عمل کا اظہار کیا کہ جس سے کانگریسی قیادت کا اصل چہر ہ سامنے آ گیا۔ اردو اور ہندی ٹکراؤ کی سب کوششیں اور کاوشیں انگریزوں کے قائم کردہ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہو گئی تھیں۔ کیونکہ فورٹ ولیم کالج میں ہی پہلی بار ہندی کو اردو سے علیحدہ ایک زبان کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا تھا ۔ اس سے پہلے ہندی یا ہندوی ”اردو“ ہی کے مختلف روپ تھے۔
اردو زبان اپنے تشکیلی عہد کے مختلف ادوار سے ہی مختلف ناموں سے موسوم رہی ہے۔ جس میں سے ایک نام ہندی یا ہندوی بھی تھا لیکن انگریزوں نے 1800ء میں فورٹ ولیم کالج میں ہندی کو اردو زبان سے علیحدہ زبان کی حیثیت سے متعارف کروایا اور اس زبان کو عربی کی بجائے دیونا گری رسم الخط میں لکھنے کا رواج دیا۔ یہ پہلی کوشش تھی جو ہندی اورمسلم رویوں کو لسانی حوالوں سے ایک دوسرے سے مختلف اور دور کرنے کے لئے کی گئی۔
نظریۂ پاکستان اور اُردُو:۔
اردو نے اس عقیدے اور نظریے کی ترویج اور اشاعت میں امتیازی کردار ادا کیا ۔ نظریۂ پاکستان ہماری منفرد تہذیبی اساس کی شناخت پر مبنی تھا اور اردو زبان نے اس شناخت اور پہچان کی پاس داری اور تبلیغ میں ایسا رویہ اختیار کیا کہ جس کی وجہ سے نظریۂ پاکستان کی فکری اور تہذیبی بنیاد ہندوستان کےمختلف حصوں میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اردو زبان ہی مسلمانوں کے فکری اور تہذیبی رویوں کی ترجمان تھی۔ اس زبان نے آزادی کی تحریک کا مقدمہ لڑا ۔ یہ مسلمانوں کے جداگانہ طرز اظہار اور منفرد طرزِ احساس کی حامل تھی۔ اس نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ان کی قوتوں کو مجتمع کرنے میں اساسی نوعیت کا کردار ادا کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ اردو زبان کی اس بنیادی حیثیت سے آگاہ تھے۔ ان کے مکالمے کی زبان اگرچہ انگریزی تھی لیکن ان کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مسلمانانِ ہندوستان کی کامیابی کا دارومدار اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور نفاذ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لئے انہوں نے اردو کی اہمیت اور افادیت کا برملا اظہار کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں اس رائے کا اظہار کیاکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اردو ہی رہے گی۔
قائد اعظمؒ کا فرمان اور اُردُو کا نفاذ:۔
قائد اعظمؒ نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنی تقاریر ، اپنے پیغامات اور اپنے فرامین میں اردو کو پاکستان کی واحدقومی زبان کے طور پر تسلیم کیا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی برتری کو تسلیم کیا ۔ قائد کا وژن اور ان کی قوت ادراک بے پناہ تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ پاکستان اسی صورت میں اسلام کی عملی تجربہ گاہ بن سکتا ہے اگر اس ملک کا تمام تر علمی، ادبی، فکری، تہذیبی، مذہبی اور دفتری کام اردو زبان میں سرانجام دیا جائے۔
About Author:
Muhammad Irfan Shahid is a renowned educationist and a prolific lecturer in Central Group of Colleges, Faisalabad. He is a lecturer, Web Designer and Developer as well as Writer. Over the past two years, he has written hundreds of articles on everything i.e. Computer, Education and History.
Excellent informative post. Quaid e Azam language Gujrati good.